the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز
etemaad live tv watch now

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ دیویندر فڑنویس مہاراشٹر کے اگلے وزیر اعلیٰ ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے



ماؤنٹین ویو، کیلیفورنیا: گوگل نے جمعرات کو ایسے کانٹیکٹ لینس بنانے کا اعلان کیا ہے جو آنسوؤں یا آنکھوں کی نمی میں گلوکوز لیول کو نوٹ کرتا ہے۔ یوں اس سادی ایجاد سے ذیابیطس کے لاکھوں مریضوں کو فائدہ ہوگا جو دن میں کئی مرتبہ اپنی انگلیاں چھید کر خون میں گلوکوز کی مقدار معلوم کرتے ہیں۔

ان لینس میں ایک چھوٹا سا گلوکومیٹر اور ایک وائرلیس ٹرانسمیٹر بھی لگا ہے۔ اس ایجاد سے دنیا میں موجود 38 کروڑ سے زائد مریضوں کو فائدہ ہوگا جنہیں دن میں کئی مرتبہ اپنی خوراک کے لحاظ سے خون میں شکر کی مقدار معلوم کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔

یہ کانٹیکٹ لینس گوگل کی ایکس لیب میں گزشتہ اٹھارہ ماہ کی محنت سے تیار کئے گئے ہیں جہاں پہلے ہی گوگل بغیر ڈرائیور کی کار، ویب سرفنگ عینک اور انٹرنیٹ سے فراہم کرنے والے بڑے بڑے غباروں کے تجربات جاری ہیں۔

لیکن کانٹیکٹ لینس پر تحقیق اصل میں کئی برس پہلے یونیورسٹی آف واشنگٹن میں شروع ہوئی تھی جہاں نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے تحت اس پر کام ہوا تھا۔ گوگل نے اس سے قبل تک کانٹیکٹ لینس پر اپنے کام کو خفیہ ہی رکھا ہوا تھا لیکن اب یہ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتائی گئی ہیں۔

' اسے اکیڈمک سطح تک تو کئی بلندیوں تک لے جایا جاسکتا ہے لیکن اس ایجاد کی خوبصورت بات یہ ہے کہ سیل فون کو مزید طاقتور اور چھوٹا بنایا جاسکتا ہے،' منصوبے پر کام کرنے والے ایک اہم ماہر برائن اوٹس نے کہا۔

امریکی ذیابیطس ایسو سی ایشن بورڈ کے سربراہ وائٹ ہولنگ نے ذیابیطس میں مبتلا مریضوں کیلئے سائنسدانوں کی کوششوں کو سراہا ہے لیکن ساتھ ہی کہا ہے کہ ایسے آلات درست ہونے چاہئیں اوریہ بھی کہ وہ بروقت معلومات فراہم کرسکیں۔

یہ ایجاد دیکھنے میں ایک عام کانٹیکٹ لینس دکھائی دیتی ہے لیکن قریب سے غور کرنے پردو سینسر نظر آتے ہیں جن میں ہزاروں باریک ٹرانسسٹرز موجود ہیں۔ اس میں بال سے باریک ایک اینٹینا بھی ہے۔

' اگرچہ یہ اس طرح کا لگتا نہیں لیکن اس میں ہر شے کو چھوٹا کرکے شامل کرنے کیلئے بہت محنت کی گئی ہے،' اوٹس نے کہا ۔ الیکٹرونکس کے باریک آلات کو تاروں سے جوڑنے کیلئے برسوں کی محنت کی گئی ہے۔ گوگل کا دعویٰ ہے کہ یہ گلوکوز ناپنے والا دنیا کا سب سے چھوٹا میٹٓر ہے۔

دوسرے ادارے بھی بنا سوئی کے گلوکومیٹر بنارہے ہیں اور ان میں ہالینڈ کی نوویو سینس نے ایک لچکدار اور بہت چھوٹا اسپرنگ بنایا ہے جو پلکوں کے نیچے چپکایا جاسکتا ہے۔



اورسینس نامی ایک اسرائیلی کمپنی نے انگوٹھے پر پہننے والا ایک سینسر تیار کیا ہے جبکہ ٹیٹو نما سینسر اورانسانی تھوک میں شکر ناپنے والے آلات پر بھی کام ہورہا ہے ۔

امریکہ میں فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی ( ایف ڈی اے) نے 2001 میں کلائی پر باندھے جانے والے ایک مانیٹر کی منظوری دی تھی لیکن مریضوں نے شکایت کی تھی کہ اس میں کم شدت کے برقی کرنٹ جسم سے مائعات کھینچتے ہیں اور اس سے انہیں تکلیف ہوتی تھی۔

نوویوسینس کے سی ای او ڈاکٹر کرسٹوفر ولسن، کہتے ہیں کئ لوگوں نے بڑے وعدے کئے لیکن سوال یہ ہے کہ کون سب سے پہلے قابلِ عمل اور مؤثرشے پیش کرتا ہے۔

پالو آلٹو میڈیکل فاؤنڈیشن کے ماہر ڈاکٹر لیری لیون کہتے ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ گوگل جیسا اہم اداروں میڈیکل ٹیکنالوجی کیلئے کام کررہا ہے۔ یہ بھی اچھی بات ہے کہ وہ ایسے مریضوں کیلئے کم تکلیف دہ شے پیش کررہے ہیں جو ہر روز اپنی انگلیوں میں سوئیاں چبھوتے ہیں یا پیٹ میں سوئی لگاتے ہیں۔

' گوگل جدید ایجادات پر کام کرتے ہیں، وہ نئی ٹیکنالوجیز پر کام کرتے ہیں اور ہمیں یہاں ایماندار ہونا چاہئے کہ اس میں سے اہم شے پیسہ ہے،' لیری نے کہا۔

پوری دنیا میں گلوکوز ناپنے والے مؤثر آلات کی مارکیٹ اس سال کے آخر تک 16 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔

گوگل ٹیم نے وائرلیس چپس کو الیکٹرانکس کے روایتی صاف کمروں میں تیار کیا ہے اور انہوں نے پیچیدہ سرکٹس میں گلوکوز مانیٹر تیار کرکے انہیں بہت چھوٹی جگہوں پر سمویا ہے۔

ذرا سوچئے کہ آنکھوں کے لینس میں نصب اتنے چھوٹے سینسرز کو کسطرح بجلی پہنچائی جائے ۔ اس کیلئے لینس میں لگے آلات فضا میں موجود وائرلیس لہروں سے توانائی حاصل کرتے ہیں تاکہ کم از کم ایک سیکنڈ میں ایک گلوکوز ریڈنگ لی جاسکے۔ پھر لینس میں لگے یہ سرکٹ بینائی کو نہیں روکتے کیونکہ یہ انسانی آنکھ کی پتلی اور آئرس سے باہر ہیں۔

گوگل نے اس کی مزید تفصیل نہیں بتائی لیکن اشارہ دیا ہے کہ وہ کسی نجی ادارے کی تلاش میں ہے جس کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے مزید ایسےآلات بنائے جاسکیں۔

جب اس لینس کو انسانوں پر آزمایا گیا تو اس کے زبردست نتائج برآمد ہوئے ہیں لیکن کچھ خامیاں بھی سامنے آئی ہیں جو ہر ایجاد کا حصہ ہوتی ہیں۔

یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا میں ذیابیطس کےماہر ڈاکٹر جون بیوس کو گوگل نے اس ایجاد پر بریفنگ دی ہے اور انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ ایجاد پانسہ پلٹ سکتی ہے لیکن اس میں ابھی کچھ رکاوٹیں حائل ہیں۔
اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.